کسی کو تاحیات نااہل کرنا اسلام کے خلاف ہے: چیف جسٹس
Image

اسلام آباد:(سنو نیوز) چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائزعیسیٰ نے کہا ہے کہ کسی کو تاحیات نااہل کرنا اسلام کے خلاف ہے۔ اگر کوئی شخص گناہ سے توبہ کر لے تو معافی مل سکتی ہے۔

تفصیل کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں نااہلی کی مدت سےمتعلق کیس کی سماعت جاری ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا وقت کی کمی کی وجہ سے مختصر دلائل سنیں گے۔

عدالتی معاون فیصل صدیقی بولے تاحیات نااہلی کے فیصلے کی وجہ سے کئی مسائل پیدا ہورہے ہیں، فیصلے کی موجودگی میں قانون سازی پر سوالات اٹھتے ہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیئے کسی کو تاحیات نااہل کرنا اسلام کے خلاف ہے۔ اگر کوئی شخص گناہ سے توبہ کر لے تو معافی مل سکتی ہے۔

نااہلی کی مدت کے تعین سے متعلق کیس کی وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی توعدالتی معاون فیصل صدیقی روسٹرم پر آئے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ سمیت دیگر وکلا سے درخواست ہے دلائل مختصر رکھیں۔ وقت کی کمی کیوجہ سے مختصر دلائل سنیں گے۔

فیصل صدیقی نے کہا کہ 50 فیصد دلائل کم کر دیئے، مختصر دلائل دونگا۔ سپریم کورٹ سمیع اللہ بلوچ کیس میں تاحیات نااہلی کا فیصلہ ختم کرے۔ تاحیات نااہلی کے فیصلے کیوجہ سے کئی مسائل پیدا ہورہے ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جب پارلیمنٹ نے ایکٹ بنا دیا ہے تو سپریم کورٹ پھر نااہلی کا فیصلہ ختم کیوں کرے؟

عدالتی معاون نے کہا کہ تاحیات نااہلی کے فیصلے کی موجودگی میں قانون سازی پر سوالات اٹھتے ہیں۔ تاحیات نااہلی کے فیصلے کی موجودگی میں الیکشن ایکٹ میں ترمیم بے سود ہے۔ تاحیات نااہلی کا فیصلہ واپس لئے بغیر پانچ سال نااہلی کا قانون غیرآئینی ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کو تاحیات نااہلی کا فیصلہ واپس لینا ہوگا۔ سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی عدالتی ڈکلریشن کی بنیاد پر دی تھی۔ لازمی نہیں کہ عدالتی ڈکلریشن ہمیشہ کیلئے ہو۔ ڈکلریشن ختم ہوتے ہی نااہلی کی معیاد بھی ختم ہوسکتی ہے۔

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ سمیع اللہ بلوچ کا فیصلہ نااہلی کی مدت کا تعین کر رہا ہے،عدالت نے دیکھنا ہے کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم سمیع اللہ بلوچ فیصلے کو ختم کرنے کی نیت سے کی گئی یا نہیں؟ اگر الیکشن ایکٹ کی ترمیم برقرار رکھنی ہے تو سمیع اللہ بلوچ فیصلے کو ختم ہونا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ نااہلی کی مدت، طریقہ کار اور پروسجر کا تعین ہونا ضروری تھا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر پارلیمنٹ نے پہلے ہی سپریم کورٹ کا فیصلہ ختم کر دیا تو عدالت کیوں اپنے فیصلے کو ختم کرے؟ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ پارلیمنٹ سادہ قانون سازی سے سپریم کورٹ کی آئینی تشریح ختم نہیں کر سکتی،اس میں کوئی شک نہیں کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ چلے گا یا الیکشن ایکٹ،پارلیمنٹ نے نااہلی کی مدت کم سے کم پانچ سال کرتے وقت الیکشن ایکٹ ترمیم کا اطلاق اٹھارویں ترمیم سے کیا۔ سمیع اللہ بلوچ میں ایسا فیصلہ دیا گیا جس پر آئینی خلا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ تاحیات نااہلی کے فیصلے کی موجودگی میں الیکشن ایکٹ میں ترمیم بے سود ہے۔تاحیات نااہلی کا فیصلہ واپس لئے بغیر پانچ سال نااہلی کا قانون غیرآئینی ہوگا۔ سپریم کورٹ کو تاحیات نااہلی کا فیصلہ واپس لینا ہوگا۔ سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی عدالتی ڈکلریشن کی بنیاد پر دی تھی۔ لازمی نہیں کہ عدالتی ڈکلریشن ہمیشہ کیلئے ہو، ڈکلریشن ختم ہوتے ہی نااہلی کی معیاد بھی ختم ہوسکتی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے وکیل فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کہہ رہے الیکشن ایکٹ اور عدالتی فیصلے کی موجودگی میں تیسرا راستہ نکالا جائے۔ وہ نظریہ بتائیں جو اس صورتحال سے باہر نکالے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ سپریم کورٹ یہ معاملہ پارلیمنٹ پر ہی چھوڑ دے۔ پارلیمنٹ خود دیکھے جو ترمیم کرنی ہے کر لیں۔

فیصل صدیقی نے کہا کہ سمیع اللہ بلوچ فیصلہ اس لیے آیا کہ آئینی خلا پر ہو سکے۔ چیف جسٹس نے ریمارکد دیے کہ آئین میں خلا کی صورت میں یہی کیوں سمجھا جاتا ہے کہ اس کو پر کرنے کیلئے عدالتی تشریح ہی ہوگی؟آئین جن چیزوں پر خاموش ہے اس کا مقصد قانون سازی کا راستہ کھلا رکھنا بھی ہو سکتا ہے۔ آئین میں تو قتل کی سزا بھی درج نہیں اس لیے تعزیرات پاکستان لایا گیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ایکٹ آف پارلیمنٹ سے آئینی ترمیم کو ریگولیٹ نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم فیصل صدیقی نے کہا کہ سمیع اللہ بلوچ کیس کا فیصلہ ختم نہ ہونے کی صورت میں آئینی تشریح کے معاملے میں مسائل ہوں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ قانون ساز خلا اس لئے چھوڑتے ہیں کہ بعد میں اس پر قانون بن سکے۔ اس بنیاد پر الیکشن ایکٹ کا سیکشن 232 ختم نہیں کیا جاسکتا۔ کیا آئین قتل کی سزا کا تعین بھی کرتا ہے؟پاکستان اگر قانون سازوں نے کوئی خلا چھوڑا ہے اسے کیسے پر کیا جائے گا؟ عدالتی معاون نے کہا کہ اگر قانون ساز خلا پر نہیں کرتے تو عدالت بھی کرسکتی ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر عدالت بھی تشریح کردے اور قانون سازی بھی ہو جائے کونسا عمل بالا ہوگا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ڈکلیریشن کی مدت پانچ سال تک رکھنا الگ بات ہے۔قانونی ترمیم سے شاید وہ اس سے تھوڑا آگے چلے گئے۔ نااہلی کی مدت کو پانچ سال تک کرنا ایک آئینی چیز کو کنٹرول کرنے جیسا ہے۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ اس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔سپریم کورٹ نے سماعت کل نو بجے تک ملتوی کر دی۔