کیا موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے بچا جا سکتا ہے؟
Image

انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے دنیا کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے اور موسمیاتی تبدیلیاں اب انسانی زندگی کے ہر پہلو کو خطرے میں ڈال رہی ہیں۔ اگر اس مسئلے پر قابو نہ پایا گیا تو انسانوں اور فطرت کو خشک سالی، سطح سمندر میں اضافے اور جانداروں  کی بڑے پیمانے پر معدومیت کے ساتھ تباہ کن گرمی کی لہروں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دنیا کے سامنے یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے لیکن اس کے ممکنہ حل بھی ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی کیا ہے؟

آب و ہوا کسی علاقے کا کئی سالوں میں اوسط موسم ہے۔ اور جب ان حالات میں اوسط تبدیلی آتی ہے تو اسے موسمیاتی تبدیلی کہتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں میں جو تیزی سے تبدیلیاں آج ہم دیکھ رہے ہیں وہ انسانوں کی طرف سے اپنے گھروں، کارخانوں اور نقل و حمل کے لیے تیل، گیس اور کوئلہ استعمال کرنے کی وجہ سے ہے۔

جب ایندھن جلتے ہیں، تو وہ گرین ہاؤس گیسیں خارج کرتے ہیں، جو زیادہ تر کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس ہوتی ہیں۔ یہ گیسیں اوزون کی تہہ کو نقصان پہنچاتی ہیں جو زمین کی حفاظتی ڈھال کا کام کرتی ہے۔ اوزون کی تہہ میں سوراخ ہونے کی وجہ سے سورج کی حرارت ضرورت سے زیادہ زمین تک پہنچتی ہے اور اس کی وجہ سے زمین کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے۔

اس بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کا اثر یہ ہے کہ گلیشیئر کی برف تیزی سے پگھلنے لگتی ہے اور سطح سمندر میں اضافہ ہوتا ہے۔ دنیا اب 19ویں صدی کے مقابلے میں تقریباً 1.1 °C زیادہ گرم ہے، اور فضا میں CO2 کی مقدار میں 50 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

موسمیاتی سائنسدانوں کے مطابق اگر ہم موسمیاتی تبدیلیوں کے بدترین نتائج سے بچنا چاہتے ہیں تو درجہ حرارت میں اضافے کو کم کرنا ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ گلوبل وارمنگ کی سطح کو 2100ء تک 1.5C تک برقرار رکھنے کی ضرورت ہے ۔ تاہم اگر اس بارے میں فوری فیصلہ نہ کیا گیا اور یہ اسی طرح جاری رہا تو پوری زمین 2 ڈگری سیلسیس سے زیادہ گرم ہوسکتی ہے۔

آزاد موسمیاتی ایکشن ٹریکر گروپ کی 2021 کی ایک رپورٹ کے مطابق، دنیا اس صدی کے آخر تک 2.4 ڈگری سیلسیس کی طرف بڑھ رہی تھی ۔ اگر کچھ نہ کیا گیا تو سائنس دانوں کا خیال ہے کہ مستقبل میں گلوبل وارمنگ 4 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر سکتی ہے ، جس سے شدید گرمی کی لہریں آئیں گی، لاکھوں لوگ سمندر کی سطح میں اضافے اور پودوں اور جانوروں کے معدوم ہونے کے باعث اپنے گھروں سے محروم ہو جائیں گے۔ اس سے جانداروں  کو ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔

موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کیا ہیں؟

دنیا بھر میں شدید موسمی واقعات پہلے سے کہیں زیادہ شدید ہو گئے ہیں ، جس سے جانوں اور معاش کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ زمین پر گرمی کے اس اضافے سے کچھ علاقے بنجر ہو سکتے ہیں، کیونکہ کھیت ریگستان میں تبدیل ہو جائیں گے ۔

مشرقی افریقہ میں مسلسل پانچویں سال نہیں بارش ہوئی جس سے اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کا کہنا ہے کہ 22 ملین افراد کو بھوک کا شدید خطرہ لاحق ہے۔ انتہائی درجہ حرارت جنگل کی آگ کے خطرے کو بھی بڑھا سکتا ہے، جیسا کہ گذشتہ موسم گرما میں یورپ میں دیکھا گیا تھا۔ جنوری اور جولائی 2022 کے درمیان فرانس اور جرمنی کے اوسط سے تقریباً سات گنا زیادہ زمین جل گئی تھی ۔

گرم درجہ حرارت کا مطلب یہ بھی ہے کہ جمی ہوئی برف تیزی سے پگھل جائے گی اور سطح سمندر میں اضافہ ہوگا۔ موسلا دھار بارشوں نےگذشتہ سال چین، پاکستان اور نائجیریا جیسے کئی علاقوں میں تاریخی سیلاب کا باعث بنا۔

ترقی پذیر ممالک میں رہنے والے لوگوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچنے کی توقع ہے کیونکہ ان کے پاس موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے وسائل کم ہیں۔ لیکن یہ ممالک مایوس ہیں کیونکہ انہوں نے ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں کم گرین ہاؤس گیسیں خارج کی ہیں۔

موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے زمین کے سمندر اور آبی حیات بھی خطرے میں ہیں۔ اپریل 2022 میں یو ایس نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن کی شائع کردہ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ 10 فیصد سے 15 فیصدکے درمیان سمندری انواع پہلے ہی معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔

جانداروں کے لیے تیزی سے گرم ہونے والی زمین پر ضروری خوراک اور پانی تلاش کرنا بھی مشکل ہو جائے گا۔ مثال کے طور پر، قطبی ریچھ مر سکتے ہیں کیونکہ وہ برف میں رہنے کے عادی ہوتے ہیں، اور ہاتھی ایک دن میں 150-300 لیٹر پانی تلاش کرنے کے لیے جدوجہد کریں گے۔

سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اگر ضروری اقدامات نہ کیے گئے تو اس صدی میں کم از کم 550 انواع معدوم ہو سکتی ہیں۔ اگر درجہ حرارت مسلسل بڑھتا رہا تو پانی کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے مرجان کی چٹانیں تباہ ہو سکتی ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی دنیا کو کیسے متاثر کرے گی؟

موسمیاتی تبدیلی کے دنیا بھر میں مختلف اثرات مرتب ہوں گے۔ اقوام متحدہ کے آب و ہوا کے ادارے آئی پی سی سی کے مطابق، اگر عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو 1.5C کے اندر نہ رکھا جائے تو:

برطانیہ اور یورپ شدید بارشوں کی وجہ سے خوفناک سیلاب کی لپیٹ میں آ جائیں گے۔

مشرق وسطیٰ کے ممالک شدید گرمی کی لہروں اور بڑے پیمانے پر خشک سالی کا سامنا کریں گے۔

بحرالکاہل کے علاقے کے جزیرے ممالک سمندر میں ڈوب سکتے ہیں۔

بہت سے افریقی ممالک کو خشک سالی اور خوراک کی کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

مغربی امریکہ میں خشک سالی کا امکان ہے جبکہ دیگر علاقوں میں مزید شدید طوفان دیکھنے کو ملیں گے۔

آسٹریلیا میں شدید گرمی اور جنگلات میں لگنے والی آگ کی وجہ سے ہلاکتوں کے امکانات ہوں گے۔

حکومتیں کیا کر رہی ہیں؟

بہت سے ممالک اس بات پر متفق ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے صرف مل کر کام کر کے ہی نمٹا جا سکتا ہے، اور 2015 میں پیرس میں ہونے والے ایک تاریخی معاہدے میں ، گلوبل وارمنگ کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک رکھنے کی کوشش کرنے کا عہد کیا تھا۔

نومبر 2022 میں، مصر نے COP-27 کے نام سے ایک سربراہی اجلاس کی میزبانی کی، جہاں عالمی رہنما موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے نئے وعدے کرنے کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں۔

بہت سے ممالک نے 2050 تک "نیٹ صفر" کے اہداف حاصل کرنے کا عزم کیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو ہر ممکن حد تک کم کرنا، اور فضا سے مساوی مقدار میں جذب کرکے بقیہ اخراج کو متوازن کرنا ہے۔

ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اب بھی ماحولیات کو ان خطرات سے بچایا جا سکتا ہے ۔ لیکن حکومتوں، کاروباری اداروں اور شہریوں کو اب خاطر خواہ تبدیلیاں کرنے کی ضرورت ہے۔