آپ ﷺ کے بعد نبوت کی بات ختم ہوگئی:چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
Image

اسلام آباد:(سنو نیوز) چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے حضرت محمدﷺ نبی آخرالزماں ہیں، اللہ نے آپ کو رحمت اللعالمین بناکر بھیجا۔ آپﷺ کے بعد نبوت کی بات ختم ہوگئی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دوران سماعت اہم ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپﷺ نے شب معراج میں تمام انبیاؑ کی امامت فرمائی۔ کسی اور پیغمبر کو کیوں یہ اعزاز نہ دیا گیا؟ اس کا مطلب تھا آپﷺ کے بعد نبوت کی بات ختم ہوگئی۔ پاکستان مذہبی ریاست،ہمارے لیے آپﷺ کی ذات سرچشمہ ہدایت ہے۔ اللہ نے ہمارے پیارے نبیﷺ کو حبیب اللہ کا لقب عطا فرمایا۔

دوسری جانب میڈیا پر ایک فیصلے سے متعلق رپورٹنگ پر سپریم کورٹ کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی غلط رپورٹنگ کی وجہ سے کئی غلط فہمیاں پیدا کی جارہی ہیں۔ ایسا تاثر دیا جارہا ہے جیسے سپریم کورٹ نے دوسری آئینی ترمیم ("مسلمان" کی تعریف) سے انحراف کیا ہے۔

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ "مذہب کے خلاف جرائم" کے متعلق مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعات ختم کرنے کےلیے کہا ہے لیکن یہ تاثر بالکل غلط ہے۔حالیہ کیس میں سپریم کورٹ نے یہ قرار دیا تھا کہ مقدمے کی ایف آئی آر میں مذکورہ الزامات کو جوں کا توں درست تسلیم بھی کیا جائے تو ان پر ان دفعات کا اطلاق نہیں ہوتا بلکہ فوجداری ترمیمی ایکٹ 1932ء کی دفعہ 5 کا اطلاق ہوتا ہے۔

سپریم کورٹ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ دفعات کے تحت ممنوعہ کتب کی نشر و اشاعت پر زیادہ سے زیادہ 6 ماہ کی قید کی سزا دی جاسکتی ہے۔ ملزم پہلے ہی قید میں ایک سال سے زائد کا عرصہ گزار چکا تھا، اس لیے اسلامی احکام، آئینی دفعات اور قانون و انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ملزم کی ضمانت پر رہائی کا حکم دیا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسے مقدمات میں جذبات مشتعل ہوجاتے ہیں اور اسلامی احکام بھلا دیے جاتے ہیں۔ فیصلے میں قرآن مجید کی آیات اسی سیاق و سباق میں دی گئی ہیں۔

Supreme court notification

عدالت عظمیٰ نے کہا کہ فیصلے میں غیر مسلموں کی مذہبی آزادی کے متعلق پاکستان کے آئین کی جو دفعات نقل کی گئی ہیں ، ان میں واضح ہے کہ یہ حقوق " قانون، امن عامہ اور اخلاق کے تابع " ہی دستیاب ہوں گے۔ آئین میں ہے کہ ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے، اس پر عمل کرنے اور اسے بیان کرنے کا حق ہوگا۔ آئین کے مطابق ہر مذہبی گروہ اور اس کے ہر فرقے کو اپنے مذہبی ادارے قائم کرنے، ان کی دیکھ بھال اور ان کے انتظام کا حق ہوگا۔ اسی نوعیت کے ایک مقدمے میں سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بنچ اس موضوع پر پہلے ہی تفصیلی فیصلہ دے چکا ہے جس سے موجودہ فیصلے میں کوئی انحراف نہیں کیا گیا۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنے فیصلوں میں قرآن مجید کی آیات، خاتم النبیین ﷺ کی احادیث، خلفائے راشدین کے فیصلوں اور فقہائے کرام کی آراء سے استدلال کرتے ہوئے کوشش کرتے ہیں۔ آئین کی دفعہ 2، دفعہ 31 اور دفعہ 227 اور قانونِ نفاذِ شریعت، 1991ء کی دفعہ 4 کا تقاضا ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ کسی اسلامی اصول یا کسی آئینی یا قانونی شق کی تعبیر میں عدالتی فیصلے میں کوئی غلطی ہوئی ہے، تو اس کی تصحیح واصلاح اہلِِ علم کی ذمہ داری ہے۔ اس کےلیے آئینی اور قانونی راستے موجود ہیں۔

سپریم کورٹ کے اعلامیے میں کہا گیا کہ چیف جسٹس اور سپریم کورٹ نے کسی کو نظرِ ثانی سے نہ پہلے روکا ہے نہ ہی اب روکیں گے۔ عدالتی فیصلوں پر مناسب اسلوب میں تنقید بھی کی جاسکتی ہے۔ نظرِ ثانی کا آئینی راستہ اختیار کیے بغیر تنقید کے نام پر، یا اس کی آڑ میں، عدلیہ یا ججوں کے خلاف منظّم مہم افسوسناک ہے۔ سپریم کورٹ یہ آئین کی دفعہ 19 میں مذکور اظہارِ رائے کی آزادی کے حق کی حدود کی خلاف ورزی بھی ہے۔ اس سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کےاس ستون کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔