منرل واٹر کے نام پر صحت سے کھلواڑ:19 کمپنیاں نامزد
Image

لاہور: (ویب ڈیسک) پاکستان میں منرل واٹر کے نام پر لوگوں کی صحت کے ساتھ کھلواڑ ہونے لگا، پاکستان کونسل فار ریسرچ ان راٹر ریسورسز نے 19 برانڈز کے پانی کو غیر محفوظ قرار دیا ہے۔

پاکستان کونسل فار ریسرچ ان واٹر ریسورسز (پی سی آر ڈبلیو آر) نے پایا ہے کہ برانڈز کی بند بوتلیں اور منرل واٹر میں نقصان دہ مادے موجود ہیں جن کی وجہ سے یہ پانی صحت کیلئے محفوظ نہیں ہیں۔ ان میں سے کچھ براندز کی بوتلز میں بیکٹیریا یا کیمیکل ہیں جو لوگوں کو بیمار کرسکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

https://sunonews.tv/30/03/2024/pakistan/74976/

حکومت نے پی سی آر ڈبلیو آر سے کہا ہے کہ وہ ہر 3 ماہ بعد منرل واٹر کے برانڈز کو چیک کرے اور لوگوں کو نتائج کے بارے میں بتائے۔ حکومت اس بات کو یقینی بنانا چاہتی ہے کہ لوگوں کو معلوم ہو کہ کون سے پانی کے برانڈز پینے کے لیے محفوظ ہیں اور کونسے نہیں۔

جنوری اور مارچ کے درمیان پی سی آر ڈبلیو آر نے 21 شہروں سے منرل واٹر کے 185 نمونوں کی جانچ کی، انہوں نے ٹیسٹ کے نتائج کا موازنہ پاکستان اسٹینڈرڈز اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی (پی ایس کیو سی اے) کے اصولوں سے کیا گیا ہے۔

پاکستان کونسل فار ریسرچ ان واٹر ریسورسز نے نتائج میں پایا کہ 19 برانڈز پاس نہیں ہوئے کیونکہ ان میں بہت زیادہ نقصان دہ مادے جیسے بیکٹیریا یا کیمیکل موجود تھے۔

ہینسلے پیور واٹر اور پیور لائف جیسے 6 برانڈز میں بہت زیادہ سوڈیم تھا۔ ایک برانڈ، جسے نیرو کہا جاتا ہے اس میں بہت زیادہ ٹوٹل تحلیل شدہ ٹھوس تھے (ٹی ڈی ایس)، دوسرے برانڈز جیسے کلیانا اور اورویل میں بہت زیادہ آرسینک تھا۔ اور کچھ برانڈز، جیسے سٹارلے اور الفارس واٹر، ان میں بیکٹیریا تھے، جو لوگوں کو بیمار کر سکتے ہیں اور لوگوں کیلئے مضر صحت ہیں۔

اس سے قبل پاکستان کونسل فار ریسرچ ان واٹر ریسورسز نے قومی اسمبلی اور لاجز میں پینے کا پانی بھی مضر صحت قرار دیا تھا، اراکین اسمبلی کا پینے کا پانی غیر محفوظ ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔

اراکین پارلیمنٹ کے پینے کے پانی سے متعلق پاکستان کونسل برائےتحقیق آبی وسائل نے سیکرٹریٹ قومی اسمبلی کو مراسلہ بھی بھیجا تھا۔

پاکستان کونسل برائے تحقیق آبی وسائل کی سہ ماہی رپورٹ میں پارلیمنٹ ہاؤس اور لاجز میں پینے کے پانی کو صحت کیلئے نقصان دہ قرار دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:

https://sunonews.tv/19/03/2024/pakistan/73530/

رپورٹ کےمطابق ڈپٹی اسپیکر روم سمیت پارلیمنٹ کے 6 مقامات سے پانی کے نمونے لیے گئے، لیےگئےتمام نمونوں کا پانی آلودہ تھا، پی سی آر ڈبلیو آر کی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ پارلیمنٹ لاجزمیں 3 بلاکس کے ٹینکوں کا پانی اب قابل استعمال نہیں رہا۔

پارلیمنٹ ہاؤس میں صرف مین فلٹریشن پلانٹ کا پانی محفوظ پایا گیا۔ پارلیمنٹ ہاؤس اورلاجز میں پانی فراہم کرنا سی ڈی اے کی ذمہ داری ہے، صاف پانی فراہم کرنے کی ذمہ داری میں سی ڈی اے بری طرح ناکام ہوگیا۔