غزہ: تاریخ کے اوراق میں محفوظ ایک عظیم الشان داستان
November, 23 2024
غزہ:(ویب ڈیسک)غزہ کی بنیاد کنعانیوں نے تقریباً 3500 سال قبل رکھی اور اس وقت اسے ’’ھزاتی‘‘ کہا جاتا تھا۔
مختلف ادوار میں اس کا نام تبدیل ہو کر ’’غزاتو‘‘، ’’ازاتی‘‘، ’’فازا‘‘ اور پھر ’’عزہ‘‘ بنا۔
عربوں نے اس شہر کو ’’غزہ‘‘ کا نام دیا، جس کا مطلب ہے ’’ناقابل تسخیر‘‘۔
غزہ اور رسول اللہ ﷺ کے آباؤ اجداد:
یہ شہر اسلامی تاریخ میں اس لیے بھی اہم ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے والد گرامی حضرت عبداللہ نے اپنی جوانی میں یہاں کا سفر کیا تھا۔
مزید یہ کہ حضور اکرم ﷺ کے پردادا ہاشم بن عبد مناف کا مزار بھی یہیں موجود ہے، جنہیں ’’سید ہاشم‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
امام شافعی اور غزہ کی محبت:
150 ہجری میں امام شافعی غزہ میں پیدا ہوئے اور بعد میں مکہ ہجرت کی۔
امام شافعی نے اپنی محبت کا اظہار غزہ کے لیے اشعار میں کیا، جس میں انہوں نے اس زمین کی عظمت کو بیان کیا۔
ابن بطوطہ کی نظر میں غزہ:
مشہور سیاح ابن بطوطہ نے 1355 میں غزہ کا دورہ کیا اور اس کی خوبصورتی اور تجارتی اہمیت کو سراہا۔ ان کے مطابق غزہ مساجد، بازاروں اور خوبصورت عمارتوں سے بھرا ہوا شہر تھا۔
قریش کے تجارتی سفر اور غزہ کی مرکزی حیثیت:
غزہ قریش کے گرمائی تجارتی سفر کا اہم مرکز تھا۔ قرآن کریم کی سورۃ قریش میں ذکر کردہ دو مشہور تجارتی راستوں میں سے ایک کی منزل غزہ تھی۔
ہاشم بن عبد مناف: غزہ میں آرام فرما:
رسول اللہ ﷺ کے پردادا ہاشم بن عبد مناف نے اپنی زندگی کے آخری ایام غزہ میں گزارے۔
ان کا مزار آج بھی "سید ہاشم مسجد" میں موجود ہے، جو مملوک اور عثمانی ادوار میں مزید تزئین و آرائش سے مزین ہوئی۔
حضرت عبداللہ بن عبد المطلب کا آخری سفر:
رسول اللہ ﷺ کے والد حضرت عبداللہ تجارت کے سلسلے میں غزہ تک پہنچے۔
واپسی پر بیماری کی وجہ سے وہ مدینہ میں اپنے ماموں کے قبیلے بنو عدی کے ہاں قیام پذیر ہوئے اور وہیں وفات پاگئے۔
یہ تحریر غزہ کی تاریخی اہمیت، اسلامی روایات اور عظیم شخصیات کے ساتھ اس کے تعلق کو اجاگر کرتی ہے، جو اس شہر کو ناقابل تسخیر بناتی ہے۔