یہ معاملہ اس وقت اہمیت اختیار کر گیا جب یہ انکشاف ہوا کہ دونوں شخصیات نے اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے غیر قانونی طور پر اس بڑی رقم کو حکومت پاکستان کے اثاثے کے طور پر سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں منتقل کرایا۔
ریفرنس کے مطابق 190 ملین پاؤنڈ کا یہ معاہدہ ایک پراپرٹی ٹائیکون کے ساتھ کیا گیا تھا جسے ایسٹ ریکوری یونٹ کے سربراہ شہزاد اکبر کے ذریعے منظوری دی گئی۔یہ معاہدہ اس وقت کیا گیا جب پاکستان کو یہ رقم منتقل کی جا رہی تھی۔
شہزاد اکبر نے 6 دسمبر 2019 کو نیشنل کرائم ایجنسی کی رازداری ڈیڈ پر دستخط کیے، جس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کی اہم شراکت داری کا ذکر کیا گیا۔
ذہن نشین رہے کہ بشریٰ بی بی نے اس میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے 24 مارچ 2021 کو القادر یونیورسٹی کے دستاویزات پر بطور ٹرسٹی دستخط کیے اور اس رقم کو اپنے اثر و رسوخ سے قانونی شکل دی۔
علاوہ ازیں عمران خان اور بشریٰ بی بی نے ایک ساتھ مل کر 240 کنال اراضی اسلام آباد کے علاقے موہڑہ نور میں حاصل کی اور پھر ذلفی بخاری کے ذریعے پراپرٹی ٹائیکون سے 458 کنال اراضی القادر یونیورسٹی کیلئے حاصل کی۔ اگرچہ القادر یونیورسٹی کا 2019 میں کوئی وجود نہیں تھا، لیکن یہ معاملات اس وقت سے ہی شروع ہو گئے جب انہوں نے اس رقم کو اپنے ذاتی فائدے کیلئے استعمال کیا۔
دوسری جانب اس اہم ترین ریفرنس کی تفتیش اور ٹرائل اڈیالہ جیل میں تقریباً ایک سال تک جاری رہی۔ 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس کا فیصلہ پہلے 18 دسمبر 2023 کو محفوظ کیا گیا تھا، اور پھر اس کا فیصلہ سنانے کی تاریخ 23 دسمبر 2023 سے ملتوی کر کے 6 جنوری 2024 رکھی گئی تھی۔
نیب نے اس ریفرنس کے تحت عمران خان کی گرفتاری 13 نومبر 2023 کو عمل میں لائی اور اس کے بعد 17 دن تک اڈیالہ جیل میں ان سے تفتیش کی گئی۔اس دوران نیب نے یکم دسمبر 2023 کو اس ریفرنس کو احتساب عدالت میں دائر کیا اور عمران خان اور بشریٰ بی بی کیخلاف مزید کارروائی کی۔
190 ملین پاؤنڈ ریفرنس میں 100 سے زائد سماعتیں ہوئیں اور نیب نے 59 گواہان کی فہرست عدالت میں جمع کرائی۔ ان گواہان میں سے 35 کے بیانات قلمبند کیے گئے اور وکلائے صفائی نے ان پر جرح بھی مکمل کی۔
عدالت نے 27 فروری 2024 کو عمران خان اور بشریٰ بی بی کیخلاف فرد جرم عائد کی تھی، جس کے بعد کیس کی سماعت مزید جاری رہی۔