اسرائیل اور حماس غزہ میں جنگ بندی معاہدے کے قریب
 اسرائیل اور حماس غزہ میں جنگ بندی معاہدے کے قریب
تل ابیب:(ویب ڈیسک)اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ میں جنگ بندی اور اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کی شرائط کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔
 
 اس جنگ بندی کے لیے جاری مذاکرات کی نگرانی کرنے والے ایک فلسطینی اہلکار نے بی بی سی کو یہ معلومات دی ہیں۔
 
یہ خبر ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ معاہدہ حتمی ہونے کے قریب ہے اور ان کی انتظامیہ اس معاملے پر تندہی سے کام کر رہی ہے۔
 
ایک اسرائیلی اہلکار نے خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو یہ بھی بتایا کہ مذاکرات ’آخری مرحلے‘ میں ہیں اور ’چند گھنٹوں یا دنوں‘ میں معاہدہ ممکن ہے۔
 
امریکی صدر جو بائیڈن نے اتوار کو اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور پیر کو قطر کے شیخ تمیم بن حمد الثانی سے بات کی، جو مذاکرات کی ثالثی کر رہے ہیں۔
 
ایک فلسطینی اہلکار نے بتایا کہ حماس اور اسرائیلی حکام پیر کو ایک عمارت میں بات چیت کر رہے تھے۔
 
اس معاہدے سے متعلق کچھ امکانات کے بارے میں معلومات دیتے ہوئے، اہلکار نے کہا کہ "اس مسئلے سے متعلق تفصیلی تکنیکی مسائل پر بات کرنے میں کافی وقت لگا۔"
 
دونوں فریقوں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ حماس معاہدے کے پہلے دن تین مغویوں کو رہا کرے گی جس کے بعد اسرائیل آبادی والے علاقوں سے اپنی فوجیں نکالنا شروع کر دے گا۔
 
سات دن بعد، حماس مزید چار یرغمالیوں کو رہا کرے گی اور اسرائیل جنوب سے بے گھر ہونے والے لوگوں کو شمال کی طرف واپس جانے کی اجازت دے گا، لیکن صرف ساحلی سڑکوں کے ذریعے پیدل۔
 
صلاح الدین روڈ کے ساتھ والی سڑک سے کاروں، جانوروں سے کھینچی گئی گاڑیوں اور ٹرکوں کو گزرنے کی اجازت ہوگی۔ اس کی نگرانی قطر اور مصر کی ٹیکنیکل سیکیورٹی ٹیم کے ذریعے چلائی جانے والی ایکسرے مشین کے ذریعے کی جائے گی۔
 
جنگ بندی کے معاہدے میں یہ شرط شامل ہے کہ اسرائیلی افواج فلاڈیلفیا راہداری میں رہیں گی اور 42 دنوں کے پہلے مرحلے کے دوران مشرقی اور شمالی سرحدوں پر 800 میٹر بفر زون کو برقرار رکھے گی۔
 
اس معاہدے کے تحت اسرائیل نے ایک ہزار فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنے پر بھی رضامندی ظاہر کی ہے جن میں تقریباً 190 ایسے ہیں جو 15 سال یا اس سے زیادہ عرصے سے سزا کاٹ رہے ہیں۔ اس کے بدلے میں حماس 34 مغویوں کو رہا کرے گی۔
 
اس جنگ بندی معاہدے کے دوسرے اور تیسرے مرحلے کے لیے مذاکرات پہلے مرحلے کے 16ویں دن شروع ہوں گے۔
 
ایک اسرائیلی نژاد امریکی یرغمالی کے والد نے بی بی سی کے نیوز آور شو کو بتایا کہ وہ یہ ماننا چاہتے ہیں کہ اسرائیل نے معاہدے کے لیے "ہاں" کہا ہے۔
 
یرغمالی کے والد جوناتھن ڈیکل چن نے کہا کہ وہ اپنے بیٹے ساگوئی کے خوف سے ہر روز "دہشت میں رہتا ہے"۔
 
ان اطلاعات کے درمیان کہ جنگ بندی کا معاہدہ ہونے کے قریب ہے، وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے کہا کہ "اس ہفتے" ایک معاہدہ طے پا سکتا ہے۔ یہ صدر جو بائیڈن کا دفتر میں آخری ہفتہ ہے۔
 
جیک سلیوان نے بتایا کہ بائیڈن مصری صدر عبدالفتاح السیسی سے بات کرنے جا رہے ہیں۔
نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے سفیر اسٹیو وٹ کوف بھی دوحہ گئے تھے۔
ٹرمپ نے پہلے خبردار کیا تھا کہ اگر 20 جنوری کو اقتدار سنبھالنے سے پہلے یرغمالیوں کو رہا نہ کیا گیا تو "سب کچھ تباہ ہو جائے گا"۔
اگرچہ اسرائیل کے وزیر خارجہ گیڈون ساعر نے صحافیوں کو بتایا کہ مذاکرات میں پیش رفت ہوئی ہے اور معاہدہ "پہلے سے بہت بہتر" نظر آ رہا ہے۔
 
لیکن تازہ ترین پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب نیتن یاہو کو ممکنہ معاہدے کے حوالے سے اپنے حکمران اتحاد کے اندر سے شدید مخالفت کا سامنا ہے۔
 
نیتن یاہو کی اپنی لیکوڈ پارٹی کے کچھ ارکان کے علاوہ دائیں بازو کے دس ارکان نے انہیں جنگ بندی کی مخالفت کرتے ہوئے ایک خط بھیجا ہے۔
 
اس گفتگو کے دوران غزہ کے شہری دفاع کے ادارے نے بتایا کہ سوموار کو غزہ شہر پر اسرائیلی فضائی حملوں میں 50 سے زائد افراد مارے گئے۔
 
سول ڈیفنس کے محمود بسال نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ "انہوں نے اسکولوں، گھروں اور یہاں تک کہ لوگوں کے ہجوم پر بھی بمباری کی۔"
 
دوسری جانب اسرائیلی فوج نے کہا کہ وہ ان رپورٹس کی تحقیقات کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ فوج نے کہا کہ پیر کو غزہ کی پٹی کے شمال میں پانچ فوجی مارے گئے۔
 
اسرائیل اور حماس کے درمیان یہ جنگ 7 اکتوبر 2023 ء کو حماس کے جنوبی اسرائیل پر حملے کے بعد شروع ہوئی تھی۔ اس حملے میں 1200 افراد مارے گئے تھے اور 251 دیگر افراد کو حماس نے یرغمال بنایا تھا۔
 
جواب میں اسرائیل نے غزہ میں حماس کے خلاف فوجی کارروائی شروع کی۔ غزہ کی حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق ان حملوں میں 46,500 سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔
 
اسرائیل کا کہنا ہے کہ 94 یرغمالی اب بھی غزہ میں موجود ہیں جن میں سے 34 کی ہلاکت کا خدشہ ہے۔ 
 
اس کے علاوہ چار دیگر اسرائیلیوں کو بھی جنگ سے قبل اغوا کیا گیا تھا جن میں سے دو ہلاک ہو چکے ہیں۔